اخوند سالاک کا تعارف اور احوال
1908ء میں، سٹوارٹ ہل گاڈفرے (جو 1902ء سے دیر، سوات اور چترال کے برطانوی سیاسی ایجنٹ تھے) نے دیر-کوہستان کا دورہ کیا۔ مقامی کوہستانیوں (جو داردی لوگ ہیں) نے انہیں اپنے زبانی روایات اور کہانیاں سنائیں۔ انہوں نے انہیں بتایا کہ آٹھ نسلوں پہلے ان کے بزرگوں کو اخوند سالاک نامی بزرگ نے اسلام سے روشناس کرایا، اور اخوند کی اولاد نے کئی سالوں تک تھل (دیر-کوہستان میں) سے عشر لیا کرتے رہے [1]۔ اسی طرح، چترالیوں کے پاس بھی اخوند سالاک کے بارے میں زبانی روایات ہیں، کہ انہوں نے جنوبی چترال کے ‘کافروں’ کے خلاف جہاد کیا اور اپنی لشکر کے ساتھ اس پر چھاپہ مارا تھا [2]۔ آپ کو سندھ-کوہستان، سوات-کوہستان اور تور غر کے داردی لوگوں کو اسلام لانے کا بھی کریڈٹ جاتا ہے۔
افضل خان خٹک کی تاریخِ مرصع (1724ء میں لکھی گئی) کے مطابق، اخوند سالاک پشتونوں کے ترین قبیلے کے توغہ شاخ سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے والد خٹک علاقے کو ہجرت کر کے وہاں آباد ہوئے تھے۔ اخوند درویزہ نے اپنی کتاب “تذکرۃ الآبرار والاشرار” میں اخوند سالاک کو ‘خٹک افغانوں کا پیر’ کہا ہے۔ [4] ‘کافروں’ کے خلاف شمالی علاقوں میں جہاد کے لیے، اخوند سالاک یوسفزئی ملک میں منتقل ہو گئے اور وہاں سے یوسفزئی قبائل کے لوگوں پر مشتمل لشکر کے ساتھ جہاد کیا۔
ان کا اصل نام اکبر بتایا جاتا ہے۔ وہ اخوند پنجو کے شاگرد تھے۔ انہوں نے کابل گرام گاؤں (موجودہ ضلع شنگلہ) کو اپنا مسکن بنایا اور وہیں دفن ہیں۔ اس لیے انہیں اکثر کابل-گرامی کہا جاتا ہے۔ ان کی اولاد کواخوند خیل کہا جاتا ہے۔
حوالہ جات
1- جغرافیائی جرنل، جلد 40، نمبر 1 (جولائی، 1912)، صفحات 45-57
3- تاریخ مرصع، صفحہ 614
4- ’تاجک سواتی و مملکت گبر‘ از محمد اختر، صفحہ 51
Comments
Post a Comment